ایوی ایشن نیوز عالمی ایوی ایشن خبریں

تباہ ہونے والے انڈونیشئن طیارے کے ریسکیو آپریشن میں شامل محافظ غوطہ خور سے گفتگو

انڈونیشئن ایئرلائن سری ویجایا ایئر کے جاوا سمندر میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے ریسکیو اپریشن میں حصہ لینے والے ایک غوطہ خور سے گفتگو۔ 09جنوری بروز ہفتہ سری ویجایا ایئر بوئنگ 737جکارتہ سے اڑان بھرنے کے چند ہی منٹس بعد تباہ ہو گیا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں بحریہ کے غوطہ خور […]

انڈونیشئن ایئرلائن سری ویجایا ایئر کے جاوا سمندر میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے ریسکیو اپریشن میں حصہ لینے والے ایک غوطہ خور سے گفتگو۔ 09جنوری بروز ہفتہ سری ویجایا ایئر بوئنگ 737جکارتہ سے اڑان بھرنے کے چند ہی منٹس بعد تباہ ہو گیا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں بحریہ کے غوطہ خور جن کو تجربہ کار رضاکاروں کی بھی معاونت حاصل ہے سمندر میں بکھرے طیارے کے ملبے میں سے مسافروں کی باقیات کی تلاش میں ہیں، بدقسمتی سے انھیں کوئی زندہ نہیں ملا۔ انڈونیشئن بحریہ کی جانب سے جاری کی گئیں زیر آب تصاویر اور فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ غوطہ خور گہرے سمندر میں کافی نیچے تک گئے ہیں اور سمندرسے ملنے والا سرخ، پیلے اور نیلے مواد اسی بد قسمت طیارے کا ہی محسوس ہوتا ہے جس میں 62 مسافر سوار تھے۔ دھات کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ، انسانی اعضاء، کپڑے اور دیگر نجی استعمال کی اشیاء بھی ملی ہیں جن کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اشیاء پرواز 182کے متاثرین کی ہی ہیں۔

بایووردویو جکارتہ سے تعلق رکھنے والے ایک رضا کار جو اس ریسکیو اپریشن کا حصہ ہیں کے مطابق یہ کام ذہنی اور جسمانی طور پر بہت تھکا دینے والا ہے۔ یہ ریسکیو مشن نیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی انڈونیشیا کی جانب سے کیا جا رہا ہے جسے عمومی طور پر بسارناس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وائس ورلڈ نیوز نے ایک تجربہ کار غوطہ خور سے بات کی جو غوطہ خوری میں 20سال کا تجربہ رکھتا ہے۔ اس نے ایوی ایشن سے وابستہ کئی آفات میں ریسکیو اپریشنز میں حصہ لیا ہے جن میں 2014میں تباہ ہونے والے ایئر ایشیا اور 2018میں تباہ ہونے والے لائن ایئر جس میں تمام 189مسافر جاں بحق ہو گئے تھے بھی شامل ہیں۔

ان حادثات نے انڈونیشیا کی ایوی ایشن کی صنعت پر بہت برے اثرات ڈالے ہیں جس کی وجہ سے ان کا سیفٹی ریکارڈ ایشیا میں سب سے برا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملک نے اس خطے میں سب سے زیادہ سویلین جہازوں کے حادثات دیکھیں ہیں۔ ماضی کے حادثات کو پائلٹس کی بری تربیت، ناکافی حفاظتی اقدامات، مکینیکل خامیاں، ایئر ٹریفک کنٹرول کے مسائل اور جہازوں کی نا مناسب دیکھ بھال سے منسوب کیا جاتا ہے۔بایونے اپنے کام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا کام دوسروں سے زیادہ مشکل ہے اس میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ انٹریوکوجامع اور واضح بنانے کیلئے اس میں کچھ درستگیاں کی گئیں ہیں۔
وائس ورلڈ نیوز: اس وقت دن کے 12بج چکے ہیں (جکارتہ کا مقامی وقت)۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ اس وقت کہاں ہیں؟
بایو وارڈویو: ہیلو وائس۔ میں اس وقت ایک گھنٹہ غوطہ خوری کرنے کے بعد نیوی کے مدر شپ پر آرام کر رہا ہوں۔ مجھے اتوار کے روزاتھارٹی کی جانب سے کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ سری ویجایا جہاز کو جکارتہ سے ٹیک آف کرنے کے بعد حادثہ پیش آیا ہے میں تب سے پانی میں ہی ہوں۔
غوطہ خوری کا ایک مرحلہ کتنا طویل ہوتا ہے؟
اصل میں اب مجھے وقت اور تاریخ کا اندازہ نہیں رہا، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ ہم نے اتوار کو یہ آپریشن شروع کیا تھا اور تب سے ادھر ہی ہیں۔ کل میں نے تین دفعہ غوطہ خوری کی جس میں ایک دفعہ کا دورانیہ 45سے ایک گھنٹے تک کا تھا میں گردو نواح میں زیر آب سروے کر رہا تھا۔
آپ کو ابھی تک کیا کچھ ملا ہے؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، ہماری امید اور اختیار سے کہیں زیادہ۔
طیارہ بہت بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے اور اسکے کئی ٹکڑے ہوئے ہیں۔ زیر آب طیارے کا بہت سارا ملبہ موجود ہے اور اسکے ساتھ ساتھ انسانی اعضاء اور لاشیں بھی، بہت سی لاشیں صحیح حالت میں ہیں۔ متاثرین کے کپڑے اور نجی اشیاء بھی پانی پر تیر رہی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہم جیسے غوطہ خوروں کے لیے غیر معمولی نہیں ہے جیسا کہ ایک عام انسان کے لیے ہے۔
آپ نے سنہ 1998میں بطور ڈائیونگ انسٹرکٹر بالی میں اپنا کریئر شروع کیا تھا، تو پھر آپ سرچ اور ریسکیو کے سمندری مشنز میں کیسے آ گئے؟
میں گزشتہ بیس سال سے سارناس کی سرچ اور ریسکیو ڈائیو اپریشنز میں معاونت کر رہا ہوں۔اگر کوئی اس نوعیت کا حادثہ رونما ہوتا ہے تو میں اپنے آپ کو مدد کے لیے پیش کرتا ہوں میرے پاس اس کام کا کافی تجربہ ہے۔ میں ایک پیشہ وارانہ سرچ اور ریسکیو غوطہ خوروں کی نجی ٹیم بھی چلا رہا ہوں جسے انڈونیشیا ڈائیورز ریسکیو ٹیم (آئی ڈی آر ٹی) کہا جاتا ہے۔ ٹیم 20ارکان پر مشتمل ہے جس میں سب ماہر غوطہ خور ہیں، یہ کام کافی مشکل ہے اور اس میں خطرہ بھی بہت ہے۔
2014میں ہم نے غیر سرکاری طور پر ٹیم بنائی تھی جب سرابایا میں ائیر ایشیا کا حادثہ ہوا تھا۔ ہم نے مشکل گھڑی میں ہمیشہ خود کو بطور رضا کار مدد کے لیے پیش کیا ہے ہماری بحریہ اور حکومتی ایجنسیاں رضا کاروں کی کاوشوں کی معترف ہیں۔ اس مشن کے بعد ہم نے رسمی طور پر کام کا آغاز کیا اور ملک کی خدمت کے لیے ہمیشہ آگے قدم بڑھائے۔ 2018میں جب لائن ائیر کا طیارہ تباہ ہوا تھا تب بھی ہم موجود تھے۔ ہم نے کئی آفات میں مدد کی ہے اس لیے ہماری کاوشوں کو سراہا جاتا ہے۔
میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان پُر خطر کاموں میں آپ کو کتنی محنت اور توانائی خرچ کرنا ہوتی ہے۔
کیا آپ اپنے کام کے بارے میں مزید بتا سکتے ہیں اور اتوار کو جب سے جہاز حادثے کا شکار ہوا ہے تب سے آپ کیا کر رہے ہیں؟
میں آپ کو کھل کر بتاتا ہوں، اس کام کے لیے انتھک محنت درکار ہے اور آپ کو جذباتی اور دماغی طور پر بھی مضبوط اعصاب کا مالک ہونا چاہیے۔ اس کام کے لیے آپ کو جانفشانی اور ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا دیکھنے والے ہیں۔ یہ کام میرے لیے نیا نہیں ہے، لیکن جب میں نے اس مشن میں ملوث دیگر غوطہ خوروں سے بات کی تو مجھے اندازہ ہوا یہ حادثہ ماضی کے حادثات سے بہت مختلف ہے۔ جائے حادثہ تک رسائی آسان ہے کیونکہ یہ جکارتہ ائیر پورٹ کے رن وے کے قریب ہے۔ لیکن جہاز بہت بری طرح سے حادثے کا شکار ہوا ہے۔ یہ منظر بہت خوفناک ہے۔ لائن ائیر کے حادثے میں جہاز کا ایک بڑا حصہ سلامت تھا اور دیگر ملبہ بھی بڑے بڑے ٹکڑوں پر مشتمل تھا، لیکن اس مرتبہ، سری ویجایا جہاز بہت بری طرح حادثے کا شکار ہوا ہے اور جہاز کے کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوئے ہیں۔ یہ مشاہدہ ہمارے لیے بہت خوفناک ہے اور ہم اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومتی تفتیش کاروں نے ہمیں متنبہ کیا تھا کہ اس اپریشن میں کافی خطرہ ہے اور واقعتاََ ایسا ہی ہے۔
کیا سمندری صورتحال سازگار ہے؟
مجموعی طور پر صورتحال بہتر ہے۔ اگر حدِ نگاہ کی بات کریں تو، سوموار کو کافی بارش ہوئی تھی جس نے ہمارے کام کو متاثر کیا تھا۔ مجموعی طور پر موسم ٹھیک ہے۔ آج کا دن (منگل) اچھا تھا، آج صبح ہمیں کافی کامیابی ملی ہے۔ مجھے اور دیگر ساتھیوں کو جس مسئلے کا سامنا ہے وہ سطح سمندر کے قریب سمندری موجیں ہیں۔ زیر آب حدِ نگاہ 5تا 8میٹر (15تا25 فٹ ہے) جسکی وجہ سے ہمیں تلاش کرنے میں کافی آسانی ہے۔ لیکن ہمیں بہت احتیاط برتنی ہے، سطح سمندر پر موجود ریت یا مٹی پر پاؤں نہیں رکھنا۔
کیا آپ نے کبھی اس طرح کے اپریشنزمیں زیر آب خود کو پریشان یا خوف میں مبتلا محسوس کیا ہے، خصوصاََ اس نوعیت کے مشنز میں؟
میں ہمیشہ اپنے طلباء سے کہتا ہوں کہ سمندر ہماری دنیا نہیں ہے اور غوطہ خوری کے لیے ذہنی طور پر پُر سکون ہونا نہایت ضروری ہے، ان تمام باتوں کا اطلاق میں خود پر بھی کرتا ہوں جب میں سرچ اور ریسکیو مشنز پرجاتا ہوں۔ میں جب کام کے لیے زیر آب ہوتا ہوں تو اپنی آنکھیں بند کر کے اچھے وقت کو یاد کرتا ہوں جس سے مجھے راحت ملتی ہے۔اس طرح کے حادثات میں ریسکیو کے کام کرنے کے لیے آپ کو مضبوط اعصاب کا مالک ہونا چاہییے،آپ کو کسی بھی طرح کے مشاہدے کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے اگر آپ نے متاثرین اور جہاز کے ملبے کو نکالنا ہے تو۔
سرچ اور ریسکیو غوطہ خوری کے لیے کیا اہم ہے؟
جیسا لوگوں کو لگتا ہے ویسا نہیں ہے،زیر آب خصوصی اپریشنز کئی حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ماہر اور تجربہ کار غوطہ خور سب سے زیادہ ضروری ہیں، لیکن اس نوعیت کے مشکل کاموں میں اور بھی بہت سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ سکوبا کٹس اور گیئرز ہر وقت تیار رکھنے ہوتے ہیں اور امدادی عملہ ہر وقت چوکس رہتا ہے۔ ہمارے پاس بحری جہازوں پر تربیت یافتہ ڈاکٹرز اور لائف بوٹس بھی ہوتی ہیں غوطہ خوری سے منسلک بیماریوں جیسا کہ ڈی کمپریشن کے لیے ڈاکٹرز بہت ضروری ہیں۔
اس وقت آپ کا کیا مشن ہے؟
ہم اس وقت جہاز کے ملبے اور انسانی لاشوں اور اعضاء کو نکال رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ جہاز کا بلیک باکس بھی جلدی مل جائے گا۔

Video

فالو کریں