سفر

میرا گلگت بلتستان کی سیر کے لیے پہلا سفر

گلگت بلتستان کے حسین مناظر
گلگت بلتستان کے حسین مناظر Photo by Aziz Ali Dad
ایک کوہ نورد کو جب کوہساروں سے بلاوا آجائے تو وہ دن، وقت، موسم، جیب اور کسی کاساتھ ہونے یا نہ ہونے سے بے پرواہ ہوکر کوہساروں کی راہوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ میرا شمار بھی چونکہ اسی قسم کے کوہ نوردوں میں ہوتا ہے سو جیسے ہی کوہساروں کا بلاواآیا میں تن تنہا […]

ایک کوہ نورد کو جب کوہساروں سے بلاوا آجائے تو وہ دن، وقت، موسم، جیب اور کسی کاساتھ ہونے یا نہ ہونے سے بے پرواہ ہوکر کوہساروں کی راہوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ میرا شمار بھی چونکہ اسی قسم کے کوہ نوردوں میں ہوتا ہے سو جیسے ہی کوہساروں کا بلاواآیا میں تن تنہا ہی نکل کھڑا ہوا۔ نہ دن دیکھے نہ رات، نہ موسم نہ حالات، اورنہ ہی اخراجات۔ یہ گلگت بلتستان کا میرا اولین سفر تھا جو میں نے اکیلے ہی کیا۔ ابتداء میں میرا ارادہ صرف ہنزہ تک محدود رہنے کا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے کہ میں پاک، چین سرحد خنجراب پاس تک گیا۔

میری روانگی 2 جون بروز اتوار ہوئی۔ راولپنڈی سے گلگت بلتستان کی ان دیکھی، انجانی راہوں پر میرے پہلےسفر کا آغاز ہوا۔ بابوسر پاس امسال ریکارڈ برف باری کے باعث جون میں بھی بندتھا۔ سو مانسہرہ سے آگے تمام راہیں میرے لیے نئی تھیں۔ قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے بشام روانہ ہوئے۔ شنکیاری، بٹل اوربٹگرام سے ہوتے ہوئے تھاہ کوٹ پہنچے۔دریائے سندھ یہیں سے کا ہم سفر بنتا ہے۔ تھاہ کوٹ کا مشہور پل عبور کیا تو سندھ کی سنگت میں چلتے ہوےٴ جلد ہی خاصی بلندی پر آگئے۔

داسو میں آدھا گھنٹہ دریا کے کنارے سیر کرتے ہوئے گزارنا پڑا۔سڑک کی تعمیر کے لیے پہاڑوں کی چٹانیں بارود سے اڑانے کاعمل جاری تھا۔داسو کے بعد ہماری منزل چلاس کا مشہور مقام تھا ۔ مانسہرہ سے نیشنل ہائی وے نمبر15 بالاکوٹ، کاغان، ناران اور بابوسر پاس سے گزر کر اسی مقام پر سے آملتی ہے ۔چلاس کے بعد اگلے دومقامات انتہائی اہم ہیں۔ گونر فارم اور رائے کوٹ۔ ان مقامات سے دنیا کے اس خطرناک پہاڑ کی طرف راستے نکلتے ہیں جسے دنیا نانگا پربت کے نام اور قاتل پہاڑ کے خطاب سے جانتی ہے۔

آٹھ ہزار میٹر سے بلند یہ دنیاکا 9واں اور پاکستان کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے۔ گونر فارم سے دیامر فیس اور رائے کوٹ سے نانگا پربت کے فیری میڈوز/رائے کوٹ فیس کو راستہ نکلتا ہے۔ نانگا پربت کا ایک تیسرا بیس کیمپ بھی ہے۔ روپل فیس۔ وادی استور میں ترشنگ سے ایک راستہ روپل گاؤں کی طرف نکلتا ہے۔ وادی روپل میں نانگا پربت دنیا کاواحد پہاڑ ہے جو 4 ہزار 570 میٹر عموداً اوپر اُٹھاہے۔ یہ خصوصیت اسے دنیا کے تمام پہاڑوں سے ممتاز کرتی ہے۔

رائے کوٹ پل سے شاہراہ قراقرم جگلوٹ کے معروف مقام پر اترتی ہے۔ جگلوٹ میں دنیا کا انوکھا ترین مقام واقع ہے۔ یہاں دنیا کے تینوں بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش باہم مل جاتے ہیں۔ گلگت شہر جگلوٹ سے 47 اور اسلام آباد سے 630 کلومیٹر کے فاصلے پردریاےٴ گلگت کے کنارےواقع ہے۔ صوبہ گلگت بلتستان کا یہ صدرمقام ہر طرف سے قراقرم کی خشک بلندیوں میں گھرا ہوا ہے۔ گلگت میں رات قیام کے بعد اگلے دن ہنزہ کے لیے روانہ ہوا۔ میرا ارادہ کریم آباد میں بلتت قلعہ کی سیر کے بعد واپسی کا تھا لیکن علی آباد میں میری ایک نوجوان سیف سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کریم آباد کی بجاےٴ سوست جانے کا مشورہ دیا۔ اس راستے پر بہت سے ایسے مقامات تھے جن کی میں سیر کرسکتا تھا۔ مجھے یہی مناسب لگا لہٰذاسوست جانے کا فیصلہ کرکے ویگن میں سوار ہوگیا۔

التر چوٹی۔ ماؤنٹ لیڈی فنگر، عطاء آباد جھیل، پسو کونز، پسو گلیشیر اور بتورہ جھیل کا نظارہ کرتے ہوئے بوقت مغرب سوست پہنچ گیا۔ کریم آباد، عطاء آباد،ششکٹ، گلمت، حسینی اور پسو کے مشہور اور خوبصورت مقامات شاہراہ قراقرم پر ہی واقع ہیں۔ ہنزہ ٹنلز بھی اسی شاہراہ پر تعمیر کی گئی ہیں۔

5 سرنگوں میں دو ،سرنگ نمبر 2 ساڑھے تین کلو میٹر اورسرنگ نمبر 4 اڑھائی کلو میٹر طویل ہیں۔ سوست میں میرے علاوہ صرف دو سیاح تھے جن کاتعلق کراچی سے تھا۔ دیپک اور فارس۔ان نوجوانوں سے سلام دعا جلد ہی بے تکلفی میں بدل گئی۔صبح اکٹھے ہی خنجراب پاس جانے کا پروگرام بن گیا۔ تینوں کو اس کا یہ فائدہ ہوا کہ انفرادی بجٹ پر پڑنے والا بوجھ خاصا ہلکا ہوگیا۔

صبح ایک کار ریزرو کروا کر پاکستان، چین سرحد خنجراب پاس کے لیے روانہ ہوئے۔شاہراہ کایہ حصہ قراقرم کے حیرت انگیز پہاڑوں سے آراستہ ہے۔ چٹانیں ہیئت میں مختلف ہیں۔ کو ئی تہہ دار ہے تو کو ئی متغیرہ۔ کو ئی سلیٹ کی مانند سپاٹ ہے تو کو ئی بھربھری۔اس سفر میں وطن عزیز کا قومی جانور مارخور بھی دکھائی دیا۔ مارموٹ تو یہاں بے شمار ہیں۔ یاک ایک پالتو جانور ہے۔ ان کے ریوڑ گلہ بانوں کی نگرانی میں آزادانہ گھومتے تھے۔ڈیڑھ گھنٹے سفر کے بعد خنجراب پاس پہنچے۔ وادی وسیع ہو گئی ۔خاصا خوبصورت علاقہ ہے۔ پہاڑ سرتاپاء برف پوش تھے۔ زمین جگہ جگہ سفید بے داغ برف سے ڈھکی تھی۔ خنجراب پاس چونکہ 16 ہزار 2 فٹ کی بلندی پر دنیا کی بلند ترین مستعمل سرحد ہے سو جون میں بھی خون جما دینے والی سردی تھی۔ تیز اور برفیلی ہوا کے جھکڑ چلتے تھے۔ برف باری بھی ہوئی جو آدھا گھنٹہ جاری رہی۔ پاکستان کی طرف سے ہمارے علاوہ 3 اور سیاح موجود تھے۔ چین کی طرف سے بھی چند سیاح آئے ہوئے تھے جن سے میری بات چیت
Hello,Hi,and How are you
تک ہی محدود رہی کہ چینی باشندے اردو نہیں جانتے تھے اور میں چینی زبان۔ جبکہ انگریزی میں بھی میں خاصا کمزور واقع ہوا ہوں۔

خنجراب پاس سے واپس سوست آئے۔ اب میراارادہ بورتھ جھیل جانے اور جھیل کنارے رات قیام کے بعد گلگت واپسی کا تھا۔ علی آباد جانے والی ایک گاڑی میں سوار ہو کر حسینی اتر گیا۔ یہاں سے بورتھ جھیل کا فاصلہ صرف 3 کلومیٹر ہے جس پر شارکٹ لیتا ہوا 20 منٹ پیدل چل کر جھیل پر پہنچ گیا۔ بورتھ جھیل ایک نمکین پانی کی جھیل ہے۔ اس میں نہ تو پانی کہیں سے آتا ہے اور نہ ہی جھیل سے پانی خارج ہوتا ہے۔ جھیل میں تیراکی بھی کی جاسکتی ہے۔ مشرقی سمت پسو کونز اور مغربی سمت گلت ٹاور دکھائی دیتے ہیں۔ جھیل سطح سمندر سے 8 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر براجمان ہے۔ بورتھ جھیل پر گاڑی کے ذریعے بھی رسائی ممکن ہے لیکن راستہ کچا اور خاصا مخدوش ہے۔

بورتھ جھیل پر رات قیام کے بعد اگلی صبح میں حسینی روانہ ہوا۔ مشہور و معروف حسینی معلق پل کی سیر کے بعد ایک موٹر سائیکل سوار سے لفٹ لے کر گلمت پہنچا۔ گلمت سے عطاء آباد جھیل صرف 4کلومیٹر دور ہے۔ یہ راستہ پیدل طے کرنے کا ارادہ بنا کر میں جھیل کی طرف روانہ ہوگیا۔ ایک گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعدمیں25کلومیٹر طویل عطاء آباد جھیل کے کنارے پر اتر چکا تھا۔ یہ جھیل جنوری 2010ء میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں دریائے ہنزہ کا راستہ بند ہوجانے سے وجود میں آئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائی 357 فٹ تک جاپہنچی۔ جھیل کے پانیوں میں نہ صرف عطاء آباد گاؤں، ششکٹ اور آئین آباد کے بڑے حصے بلکہ شاہراہ قراقرم کا ایک حصہ بھی ڈوب گیا جس کے بعد جھیل کے کنارے قراقرم کے پہاڑوں میں ہنزہ ٹنلز تعمیر کی گئیں۔

عطاء آباد جھیل کی سیر کے بعد ایک نجی گاڑی میں لفٹ لے کر میں علی آباد پہنچ گیا۔ مجھے سفر کا حسین ترین تحفہ اب ملا۔ راکاپوشی جو جاتے ہوئے بادلوں میں روپوش رہا اب تمام پردے گرا کر اپنی تمام تر رعنائیوں، حشرسامانیوں اور سحر خیزیوں کے ساتھ سامنے موجود تھا۔ ایک کوہ نورد کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے؟ یہ میری کتاب سیاحت کا خوبصورت ترین صفحہ تھا۔ قدرت کی خوبصورت ترین صناعی کا شاہکار راکاپوشی بلا شبہ دنیا کا سب سے حسین پہاڑ ہے۔ سر تا پاء برف کی بے داغ سفید چار میں مستور یہ پہاڑ 7 ہزار 788 میٹر (25 ہزار 700 فٹ) کی بلندی حاصل کیے ہوئے ہے۔علی آباد سے ناصر آباد تک راکاپوشی چند کلو میٹر تک ہی میری آنکھوں میں رہا لیکن حسین راکاپوشی ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ راکاپوشی کے حسین جلووں کی انمٹ یادیں لئے میں شام کو گلگت اور گلگت سے 23 گھنٹے کا سفر کرکے واپس ربوہ پہنچا۔
گلگت بلتستان ناصرف وطن عزیز بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ علی آباد سے خنجراب پاس تک کا علاقہ کوہساروں کے دلفریب نظاروں، پہاڑوں کی حیرت انگیز چٹانوں اور وادیوں کی سرسبز بہاروں سے بھرا پڑا ہے۔ دلکش زمینی خدوخال کے حامل اس علاقے کے لوگ بھی معاون و مددگار اورملنسار و مہمان نواز ہیں۔ گلگت بلتستان کے اس یادگار سفر میں اللہ رب العالمین کی خاص رحمت اور فضل میرے شامل حال رہا۔ خنجراب پاس تک میرا یہ نا صرف گلگت بلتستان بلکہ پہاڑوں کا بھی تن تنہا پہلا سفر تھا جو اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے احسانوں کے زیر بار نہایت کامیاب رہا۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ۔

About the author

pakaviation

Add Comment

Click here to post a comment

Video

فالو کریں