اداریہ

پی آئی اے کے سی ای او کا ہوا بازی سے کیا تعلق ہے؟

Air Marshal Arshad Malik and Musharraf Rasool Cyan
Air Marshal Arshad Malik and Musharraf Rasool Cyan

“آسمان کی جانب دیکھیے! وہ ایک پرندہ ہے! – نہیں، وہ ایک ہوائی جہاز ہے! – نہیں، بلکہ وہ تو سپر مین ہے!” وہ افراد اس جملے سے واقف ہوں گے جو اسی کی دہائی کے درمیان بننے والی مووی سیریز سے پہلے کارٹون جمع کرتے تھے یا جو ڈی سی کامکس کےشوقین تھے۔ اس جملے کے بعد بولا جاتا تھا “بندوق کی گولی سے تیز! ریل کے انجن سے زیادہ طاقتور!ایک چھلانگ میں اونچی عمارتوں کو پھلانگنے کے قابل!” یہ خوبیاں سیارہ کرپٹون کے سب سے طاقتور شخص کا عکس تھیں، جس کی واحد کمزوری اسی کے سیارے پر ہی پائی جانے والی معدنیات “کرپٹونائٹ” تھی۔

میرے خیال سے سپریم کورٹ کے قابلِ احترام ججز ہماری قومی ایئر لائن کے سی ای او میں بھی یہی خوبیاں ڈھونڈ رہے ہیں۔ انگریزی مثل ہےکہ ہر سنکی انسان کے اندر ایک مایوس مثالیت پسند ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سپر مین کے نام میں بے شک “مین” ہے تاہم وہ انسان نہیں، بلکہ ایک مثالی سیارے سے تعلق رکھتا ہے جو نیک و بد کی جنگ میں تباہ ہو گیا تھا۔ وہ اس سیارے کی اشرافیہ کا آخری زندہ فرد تھا جو تمام اچھائی کا استعارہ تھی۔آخری زندہ فرد پر خاص زور، کیوں کہ سپر مین اپنی قسم کا ایک ہی فرد تھا اور اس جیسا کوئی اور ممکن نہیں۔

قوم کے سابقہ فخر، یعنی پی آئی اے، کا زوال ماہرین کے لیے ایک معمے سے کم نہیں۔ اور انتظامیہ میں تسلسل نہ ہونے کے باعث یہ تمام تجربات بھاری نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پی پی پی کے بعد یکے بعد دیگرے ہر حکومت نے اس تھیوری پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بوئنگ 777 کےایک کپتان تو اس کو ایک مسلمان ملک کو بھائی چارے میں تقریباً بیچنے لگےتھے۔تو ایک ریٹائیرڈ ایئر چیف مارشل کو مداخلت سے شکائت تھی ،سو وہ چھوڑ گئے۔ ایک غیر ملکی ہوابازی ماہر ایک خراب ایئر بس اے 310 کو اپنے ملک کے ایک میوزئیم کو عطیہ کر بیٹھے ، ایک کاروباری شخصیت جو ایک پرانے کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے فیصلہ سازی کے عمل کو نہایت متنازعہ تصور کر کے چلتا ہوئے ،تو کہیں ریٹائرڈ پی آئی اے ایگزیکٹوز کو مقامی مہارت کے لیے لایا گیا اور وہ اس کے کارپوریٹ ماحول میں بے چینی محسوس کرنے لگے جو نہایت بوسیدہ ہوچلا ہے ۔ ان تمام اقدامات کا مقصد پی آئی اے کو آئی ایم ایف اور دیگر ایجنسیوں،جو سرکاری ملکیت میں موجود انٹرپرائز کو بہتر کرنے کے مطالبے میں تھے، کے دباؤ کے نتیجے میں ایک جہت فراہم کرنا تھا۔

نواز شریف کی حکومت نے اپنے آخری ایام میں پی آئی اے سی ایل کو ڈاکٹر مشرف رسول سیان کی صورت میں پہلا کل وقتی چیف ایگزیکٹودیا : ایک ٹیکنوکریٹ جو جارجیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور پہلے بیوروکریٹ تھے۔ بہترین شہرت کے حامل،وہ لارینس کالج میں اپنے اسکول کے دنوں سے سول سروس تک ایک بہترین کارکردگی دکھاتے رہے۔ انہوں نے ایئر لائن کو بہتری کے ایک درست راستے پر لانے کا وعدہ کیا اور وہ کافی حد تک اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوئے۔ تاہم پی آئی اے کو اپنی شاندار ماضی کی حالت میں راتوں رات نہیں لایا جا سکتا۔ ڈاکٹر مشرف کی استقامت اور ہمت سے فقط معمول کی پروازوں کی اچھی کارکردگی ممکن تھی، جو ان سے پہلے اربابِ اختیار کی مرضیوں کی مرہونِ منت تھی۔ ان سے اخراجات کا نظام بہتر نہیں ہو سکا جو نہایت زبوں حالی کا شکار تھا بلکہ وہ منافع سے پیش نظر ہر پرواز پر اس کی جائز قیمت لگاتے تھے۔

سپرمین کی تلاش کے خیال نے پی ٹی آئی حکومت کو بھی اپنی زد میں لے لیا جس کے خیال میں پی آئی اے ڈسپلن کے معیار میں ایئر فورس سے مات کھا رہی تھی۔ ایئر فورس میں سپر مین کی خصوصیات تھیں، وہ طاقتور تھے، مضبوط تھے، اور ان کا عملی ریکارڈ ان کے اقوال کی تائید میں تھا۔سو ایک سال میں ڈسپلن کےمعاملات طے ہوئے؛ تمام دھکم پیل اور شعلہ بیان تقریریں بند ہوئیں اور پی آئی اے بہتری کی جانب گامزن کردی گئی۔

یہ سپرمین شائد اپنے سابقہ تجربے سے شائد کچھ بہتری لا سکتے مگر یہا ں تو کہانی ہی اور تھی۔ ان کو ائیر فورس کے عملے کی عادت تھی جہاں اھکامات لیے جاتے تھے اور ان پر بلا چوں و چرا عمل کیا جاتا تھا۔ وہ ایک گھونگھے کی رفتار سے آگے بڑھے، ملٹری میں جس اعتماد کے وہ حامل تھے وہ ان کے لیے خمیازے کا باعث بن گیا۔ ان کی ناک تلے پروموشن بورڈ میں حماقتیں سر زد ہوتی رہیں جو تب ظاہر ہوتیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔ ان کاناز انہیں کے خلاف استعمال ہو گیا۔

ایئر مارشل کو نیچے لانے کا پلاٹ وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا گیا۔ سیاسی نیتوں کی حامل یونینز اپنے سٹاف پر اختیار کھو رہی تھیں، سیاسی جماعتوں کا ائیر لائن کی پالیسیز پر اثر کم ہوتا گیا اور کرپٹ مافیا کی جیبیں متاثر ہونے لگیں۔ اب بھاری قیمت پر انجن کو لیز نہیں دیا جا سکتا تھا نہ ہی “گھوسٹ ملازمین” ممکن تھے۔ وہ ممتاز سپاہی بھی مشکل میں پھنس گئے اور اس سے پہلے کہ وہ کام سیکھتے، ان کے نیچے سے قالین کھینچ لیا گیا۔

کہانی کا نتیجہ: “غلطی انسانوں سے ہوتی ہے مگر خدائی معاف کرنے میں ہے”۔ بہترین نیتوں کی حامل ہو کر بھی یکے بعد دیگرے دو نوں انتظامیہ کیے ہوئے وعدے نبھانے میں ناکام رہیں۔ اب پی آئی اے جس دلدل میں پھنس چکی ہے اور جتنا زہر انگیز اس کا ماحول بن چکا ہے، شائد سپر مین کو بھی اس میں سے فقط اپنا راستہ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئے، کجا یہ کہ کرپٹونائیٹ کے پتھروں سے گھرا ہو کر بھی اونچا کھڑا رہے۔

About the author

pakaviation

Add Comment

Click here to post a comment

Video

فالو کریں